Sunday, 24 February 2013

[Pak Youth] . قومی زبان کی مظلومیت!.



آج وطن عزیز کا انگ انگ زخمی ہے۔ عوام ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ یوں معلوم

ہوتا ہے کہ جنگی درندے بستیوں میں گھس آئے ہیں اور امن پسند شہریوں کو ان کے گلی

محلے اور گھر کے اندر بھی امن وسکون میسر نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دھماکے اور

ٹارگٹ کلنگ دہشت گردوں کے گروہوں کا شاخسانہ ہے جن کے پیچھے ملک دشمن قوتوں

 کا ہاتھ کارفرما ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے محافظ کہاں کھو گئے ہیں؟ اس موضوع پر

ہر روز ذرائع ابلاغ میں چیخ وپکار سنائی دیتی ہے مگر ارباب حل وعقد کے کانوں پر

جوں تک نہیں رینگتی۔ مہنگائی، بیروزگاری، قتل وغارت گری اور بدعنوانی کا رونا تو

رویا جا ہی رہا تھا افسوس اس بات کا ہے کہ ایک نیا اور مہلک حملہ خدمت کے روپ میں

 کیا جارہا ہے۔ کیا کیجیے اور کس سے داد طلب کیجیے کہ اس مظلوم قوم کے جسم پر

مزید کچوکے لگانے کے لیے اور زخموں پر نمک پاشی کے لیے خادم اعلیٰ پنجاب بھی

میدان میں نکل آئے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ


تن ہمہ داغ داغ شد


پنبہ کجا کجا نہم!


اس میں شک نہیں کہ موصوف نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں۔ نوجوان طلبہ وطالبات

کے درمیان لیپ ٹاپ کی تقسیم اور راستوں اور گزرگاہوں کو کشادہ اور تیز تر بنانے کے

لیے اقدامات قابل تحسین ہیں۔ یہ سارا کام سرکاری خزانے ہی سے ہورہا ہے مگر پھر بھی

اس سے ملک وقوم کو جو فائدہ ہوسکتا ہے اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم ان اچھے

کاموں کے ساتھ جو انتہائی خطرناک، تباہ کن اور ملی تشخص کو ملیامیٹ کرنے کا ڈول

انھوں نے ڈالا ہے اس سے آنکھیں بند کرنا کسی غیرت مند پاکستانی کے لیے ممکن نہیں۔


خادم اعلیٰ صاحب کا قومی زبان اردو کے خلاف جارحانہ طرز عمل اور استعماری زبان

انگریزی کو آغاز ہی سے ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج کرنا ملک وقوم کے ساتھ بہت

بڑی دشمنی ہے۔ اس کے ساتھ ہی موصوف نے روزِ اول ہی سے پنجاب کے تعلیمی

اداروں میں مخلوط تعلیم کو لازم کرکے اسے اگلے مدارج تک ترویج دینے کا بھی

منصوبہ شروع کردیا ہے۔ اس کی تفصیلات تو بہت ہیں مگر اختصار کے ساتھ یہ کہا

جاسکتا ہے کہ جو کام انگریز اپنے دورِ استعمار میں نہ کرسکا وہ کام آج خادم اعلیٰ کے

ہاتھوں سرانجام دیا جارہا ہے۔ جناب عالی! جن قوموں نے دنیا میں ترقی کی ہے تاریخ اور

اعداد وشمار کے جملہ کوائف گواہ ہیں کہ ان کی یہ ترقی کسی بدیشی زبان کو ذریعہ تعلیم

قرار دینے سے عمل میں نہیں آئی۔ جاپان ہو یا جرمنی، چین ہو یا فرانس، ان تمام ممالک

نے اپنی قومی زبانوں کو ذریعہ تعلیم قرار دے کر اور انگریزی اور دیگر غیر ملکی

زبانوں کو بطور مضمون اپنے نظام تعلیم کا حصہ بنا کر ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔


یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ہم پاکستانی ہو کر اردو کشی پر اتر آئے ہیں جب کہ فورٹ

ولیم کالج کلکتہ میں انگریز ماہر تعلیم گلکرسٹ نے بیسویں صدی کے آغاز یعنی 1800ء

میں اردو زبان کو رائج کیا اور اس میں بیش بہا تصنیفی خدمات سرانجام دیں۔ ہماری اپنی

مقامی یونی ورسٹی عثمانیہ یونی ورسٹی حیدرآباد دکن نے ایک اعلیٰ مثال قائم کی جہاں

جنگ عظیم اول کے خاتمے پر نظام حیدرآباد نے اپنے مشیروں کے مشورے سے اردو کو

 تمام سائنسی علوم کی تدریس کا ذریعہ بنایا۔ 1918ء سے تقسیم ہند تک یہ سلسلہ بہت

کامیابی سے چلتا رہا۔ سائنس کے تمام مضامین، انجینئرنگ سے لے کر میڈیکل تک سب

کے لیے اردو کورس تیار کیے گئے۔ یہ ارتقا بڑی کامیابی اور خوش اسلوبی کے ساتھ

جاری تھا کہ 1948ء میں بھارت کے اس مسلمان ریاست پر غاصبانہ قبضے نے اردو

زبان کی ساکھ لپیٹ دی۔ ہندو کی اردو دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ انھوں نے

اردو کو ختم کرکے اس کی جگہ ہندی رائج کرنے کے لیے طویل عرصہ پہلے منصوبہ

بندی کرلی تھی۔ تعجب تو خادم اعلیٰ کے اس اقدام پر ہے جس کے لیے وہ بہت پرُجوش

انداز میں میدان میں نکلے ہیں۔ اردو کو بے دخل کرنے کے نتیجے میں ہماری نوجوان

نسل اسلام، جذبہ حب الوطنی، اپنے قومی وملی ورثے اور زبانِ اردو میں موجود بے شمار

 قیمتی کتب سے مکمل طو رپر کٹ جائے گی۔ خادم اعلیٰ کو سوچنا چاہیے کہ ہماری جتنی

بھی عظیم ملی وقومی شخصیات کا تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور تعمیر پاکستان میں

کوئی قابل قدر کارنامہ ہے، ان کی پہچان اردو زبان ہی تھی۔ جو قومیں اپنی زبان سے

لاتعلق ہوجاتی ہیں وہ تاریخ کی گزرگاہوںمیں اپنا تشخص بھی گم کربیٹھتی ہیں اور اپنے

اصل سے بھی محروم ہوجاتی ہیں۔ ہمیں مرعوبیت کے خول سے نکل آنا چاہیے۔ ہمیں اپنے

 قومی ورثے اور اپنی قومی زبان پر فخر کرنا چاہیے۔


بانیِ پاکستان حضرت قائداعظمؒ نے بارہا ہندو اور انگریز لیڈروں کے سامنے اس بات کا

برملا اعلان کیا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہم اس سے کسی صورت دست بردار

نہیں ہوسکتے۔ انگریزی تو بدیشی زبان ہے، 1908ء میں جب پنجاب یونی ورسٹی کے ہندو

 وائس چانسلر ڈاکٹر چیٹرجی نے یونی ورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں کہا کہ پنجاب میں

 اردو کی جگہ پنجابی رائج کی جائے تو مسلمانان پنجاب اس بیان کے خلاف بھی یک زبان

 ہو کر میدان میں نکل آئے۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا

اور اس میں علامہ اقبال، سرشیخ عبدالقادر، سرمحمد شفیع، مولانا سلیمان شاہ پھلواری اور

دیگر مسلم رہنماؤں نے اردو کی حمایت میں مدلل تقاریر کیں اور ایک جامع قرار داد

منظور کی گئی جس میں دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ مسلمان، برصغیر، بالخصوص

پنجاب میں اردو زبان سے کسی صورت دستبردار ہوں گے نہ ہی اس کی جگہ کسی

دوسری زبان کو رائج کرنے کی اجازت دیں گے۔


قائداعظمؒ کا ایک مشہور خطاب ہے جو علی گڑھ یونی ورسٹی میں 1941ء میں لوگوں نے

ان کی زبان سے سنا۔ انگریزوں اور ہندوؤں کو مخاطب کرکے آپ نے فرمایا: ''مجھے

پاکستان میں اسلامی تاریخ کی روشنی میں اور اپنی ثقافت نیز روایات کے تحت اور اپنی

اردو زبان کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی گزارنے دو۔'' حضرت مولانا اشرف علی

تھانوی صاحب کا بھی ایک فتویٰ قائداعظمؒ ہی کے استفسار پر 1935ء میں سامنے آیا جس

میں انھوں نے فرمایا: ''اس وقت اردو کی حفاظت دین کی حفاظت ہے، اس کی حفاظت

کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔ لہٰذا قدرت کے باوجود اس سلسلے میں غفلت اور سستی کا

مظاہرہ کرنا موجبِ گناہ ہوگا جس کا آخرت میں مواخذہ کیا جائے گا۔'' (بحوالہ قومی ذریعہ

 تعلیم، ڈاکٹر محمد شریف نظامی)۔


یہاں شاید یہ امر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہوگا کہ باغیرت نومسلم پاکستانی بھی

اردو زبان کی اہمیت سے واقف ہیں ۔ راقم کے لیے تو یہ واقعہ بڑا ایمان افروز بھی ہے کہ

نومسلم امریکی خاتون مریم جمیلہؒ نے پاکستان آنے کے بعد اپنے بچوں کو انگریزی کے

بجائے اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے اور اسی میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی

تعلیم وترغیب دی۔ وہ خود انگریزی زبان میں اسلام کا دفاع کرنے کے لیے لکھتی رہیں

جس کا ثبوت ان کی تین درجن معرکۂ آرا کتب ہیں۔ مگر وہ فرمایا کرتی تھیں کہ میری تو

مجبوری ہے کہ میری مادری زبان انگریزی ہے۔ میں اردو میں وہ مقام حاصل نہیں

کرسکتی جو اچھی تصنیف کے لیے درکار ہے، اس لیے میں تو مجبوراً انگریزی میں

لکھتی ہوں۔ اس حوالے سے ہم ان کے بیٹے حیدرفاروق کی زبانی محترمہ کی یہ نصیحت

قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں: ''مریم جمیلہ کے عزمِ صمیم اور غیرت اسلامی

کو صدرِ اول کے اہل عزیمت کی مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔ مریم جمیلہ کے بیٹے حیدر

فاروق نے بتایا کہ میں جب امریکا گیا تو تحریکی ساتھیوں نے مجھ سے کہا: ''انگریزی

میں تقریر کرو''۔ ان کا خیال تھا کہ میری والدہ کی وجہ سے انگریزی میری مادری زبان

ہوگی۔ میں نے کہا : ''نہیں میں تو اردو ہی میں کچھ کہہ سکتا ہوں''۔ اس پر سب لوگوں کو

ازحد تعجب ہوا۔ دراصل آپا [مریم جمیلہ] نے ہمیں یہی سمجھایا تھا کہ اردو ہماری قومی

زبان ہے اور اسی میں ہمیں تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ میں نے ایک بار امریکا سے اپنے

خط میں یہ شکایت لکھی کہ ہمیں انگریزی میں کمال اور مہارت آپ نے فراہم نہیں کی تو

جواب لکھا: ''تم میرے انگریزی مکتوب کو اچھی طرح سمجھ لیتے ہو اور مجھے جواب

بھی لکھ دیتے ہو۔ اتنی انگریزی کیا تمھارے لیے کم ہے؟ اُردو پر فخر کرو، ہرگز کبھی

مرعوبیت کا شکار نہ ہونا۔'' (عزیمت کے راہی، جلدچہارم، صفحہ259-260)

 

 

--
-
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Pak Youth" group.
To post to this group, send email to pak-youth@googlegroups.com.
To unsubscribe from this group, send email to pak-youth+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit this group at http://groups.google.com/group/pak-youth?hl=en.
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Pak Youth" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to pak-youth+unsubscribe@googlegroups.com.
To post to this group, send email to pak-youth@googlegroups.com.
Visit this group at http://groups.google.com/group/pak-youth?hl=en.
For more options, visit https://groups.google.com/groups/opt_out.
 
 

No comments:

Post a Comment